آئینہ کبھی قابل دیدار نہ ہووے
گر خاک کے ساتھ اس کو سروکار نہ ہووے
عشق اورنگ آبادی
عشقؔ روشن تھا وہاں دیدۂ آہو سے چراغ
میں جو یک رات گیا قیس کے کاشانے میں
عشق اورنگ آبادی
ہو گل بلبل تبھی بلبل پہ بلبل پھول کر گل ہو
ترے گر گل بدن بر میں قبائے چشم بلبل ہو
عشق اورنگ آبادی
گرفتاری کی لذت اور نرا آزاد کیا جانے
خوشی سے کاٹنا غم کا دل ناشاد کیا جانے
عشق اورنگ آبادی
گر شیخ نے آہ کی تو مت بھول
دل میں پتھر کے بھی شرر ہے
عشق اورنگ آبادی
دختر رز مت کہو ناپاک ہے
آبروئے دودمان تاک ہے
عشق اورنگ آبادی
اے مقلد بو الہوس ہم سے نہ کر دعوائے عشق
داغ لالہ کی طرح رکھتے ہیں مادر زاد ہم
عشق اورنگ آبادی
عاشق کی سیہ روزی ایجاد ہوئی جس دن
اس روز سے خوابوں کی یہ زلف پریشاں ہے
عشق اورنگ آبادی
آنکھوں سے دل کے دید کو مانع نہیں نفس
عاشق کو عین ہجر میں بھی وصل یار ہے
عشق اورنگ آبادی