صفحے پہ کب چمن کے ہوا سے غبار ہے
یہ اپنے سر پہ خاک اڑاتی بہار ہے
شبنم کا کچھ نہیں گل نرگس او پر اثر
یہ دیکھ لو بہار کی چشم اشک بار ہے
یہ شاخ گل پہ غنچۂ گل سے بہار کا
یارو دل گرفتہ دیکھو آشکار ہے
ہوتا ہے گل کی طرز سے اظہار اس طرح
یہ پارہ پارہ دامن و جیب بہار ہے
گلشن کے بیچ یہ گل صد برگ نیں ہے زرد
اے عاشقو بہار کا رنگ عذار ہے
گلشن کے بیچ کہتے ہیں یہ جس کو لالہ زار
سو نوبہار کا جگر داغدار ہے
پتھر سے مار مار کے سر روتی ہے بہار
جس کو چمن میں کہتے ہیں یہ آبشار ہے
یہ حال خستہ دیکھ چمن میں بہار کا
حسرت سے میرے دل کے اپر خار خار ہے
گلشن کی طرح سے مجھ رنگیں دلوں کے بیچ
ہے خوش نما وہ جیب کہ جو تار تار ہے
صد چاک گل کا سن کے ہوا جیب پیرہن
یاں تک تو پر اثر سے فغان ہزار ہے
اک بلبل اسیر سے پوچھا میں کس لیے
آنے کا فصل گل کے تجھے انتظار ہے
کہنے لگی وہ عقدۂ خاطر کو کھول کر
گل گل شگفتہ ہوں میں سنوں جو بہار ہے
آنکھوں سے دل کے دید کو مانع نہیں نفس
عاشق کو عین ہجر میں بھی وصل یار ہے
اس شمع رو پہ دل سے تصدق ہے بلکہ عشقؔ
پروانہ وار جان سے ہر دم نثار ہے
غزل
صفحے پہ کب چمن کے ہوا سے غبار ہے
عشق اورنگ آبادی