EN हिंदी
آئینہ کبھی قابل دیدار نہ ہووے | شیح شیری
aaina kabhi qabil-e-didar na howe

غزل

آئینہ کبھی قابل دیدار نہ ہووے

عشق اورنگ آبادی

;

آئینہ کبھی قابل دیدار نہ ہووے
گر خاک کے ساتھ اس کو سروکار نہ ہووے

کیا خاک کہو اس میں تجلی ہو نمایاں
خورشید کا جو ذرہ پرستار نہ ہووے

گر مہر نہ ہو داغ کے الفت کی گواہی
منظور مرے درد کا طومار نہ ہووے

دل خواب کی غفلت سے مبادا کہیں چونکے
یہ فتنۂ خوابیدہ ہی بیدار نہ ہووے

عشق اہل وفا بیچ اسے قدر ہے کیا خاک
وہ دل کہ جو گرد رہ دل دار نہ ہووے