آئینہ کبھی قابل دیدار نہ ہووے
گر خاک کے ساتھ اس کو سروکار نہ ہووے
کیا خاک کہو اس میں تجلی ہو نمایاں
خورشید کا جو ذرہ پرستار نہ ہووے
گر مہر نہ ہو داغ کے الفت کی گواہی
منظور مرے درد کا طومار نہ ہووے
دل خواب کی غفلت سے مبادا کہیں چونکے
یہ فتنۂ خوابیدہ ہی بیدار نہ ہووے
عشق اہل وفا بیچ اسے قدر ہے کیا خاک
وہ دل کہ جو گرد رہ دل دار نہ ہووے
غزل
آئینہ کبھی قابل دیدار نہ ہووے
عشق اورنگ آبادی