EN हिंदी
انعام ندیمؔ شیاری | شیح شیری

انعام ندیمؔ شیر

15 شیر

اپنی ہی روانی میں بہتا نظر آتا ہے
یہ شہر بلندی سے دریا نظر آتا ہے

انعام ندیمؔ




بجھ جائے گا اک روز تری یاد کا شعلہ
لیکن مرے سینے میں دھواں یوں ہی رہے گا

انعام ندیمؔ




دریا کو کنارے سے کیا دیکھتے رہتے ہو
اندر سے کبھی دیکھو کیسا نظر آتا ہے

انعام ندیمؔ




ایک لمحہ لوٹ کر آیا نہیں
یہ برس بھی رائیگاں رخصت ہوا

انعام ندیمؔ




ہم ٹھہرے رہیں گے کسی تعبیر کو تھامے
آنکھوں میں کوئی خواب رواں یوں ہی رہے گا

انعام ندیمؔ




جیے گرچہ اسی دنیا میں ہم بھی
مگر دنیا ہماری اور ہی تھی

انعام ندیمؔ




جو تیری آرزو مجھ کو نہ ہوتی
تو کوئی دوسرا آزار ہوتا

انعام ندیمؔ




کبھی لوٹ آیا میں دشت سے تو یہ شہر بھی
اسی گرد میں تھا اٹا ہوا مرے سامنے

انعام ندیمؔ




خاموش کھڑا ہوں میں در خواب سے باہر
کیا جانیے کب تک اسی حالت میں رہوں گا

انعام ندیمؔ