دل پر کسی پتھر کا نشاں یوں ہی رہے گا
تا عمر یہ شیشے کا مکاں یوں ہی رہے گا
ہم ٹھہرے رہیں گے کسی تعبیر کو تھامے
آنکھوں میں کوئی خواب رواں یوں ہی رہے گا
ہے دھند میں ڈوبا ہوا اس شہر کا منظر
کیا جانئے کب تک یہ سماں یوں ہی رہے گا
کچھ دیر رہے گی ابھی بازار کی رونق
کچھ دیر یہ ہونے کا گماں یوں ہی رہے گا
بجھ جائے گا اک روز تری یاد کا شعلہ
لیکن مرے سینے میں دھواں یوں ہی رہے گا
لو دے تو رہا ہے مرے خوابوں کے افق پر
لیکن یہ ستارہ بھی کہاں یوں ہی رہے گا
غزل
دل پر کسی پتھر کا نشاں یوں ہی رہے گا
انعام ندیمؔ