ہمیں تو انتظاری اور ہی تھی
مگر باد بہاری اور ہی تھی
سنبھلتا کیا سنبھالے سے تمھارے
کہ دل کو بے قراری اور ہی تھی
تھی میرے خواب سے باہر بھی دنیا
مگر ساری کی ساری اور ہی تھی
سبھی کچھ تھا ہمارے دل کے بس میں
مگر بے اختیاری اور ہی تھی
ہمارا دل کوئی شیشہ نہیں تھا
پر اب کے سنگ باری اور ہی تھی
جیے گرچہ اسی دنیا میں ہم بھی
مگر دنیا ہماری اور ہی تھی
غزل
ہمیں تو انتظاری اور ہی تھی
انعام ندیمؔ