کوئی باغ سا سجا ہوا مرے سامنے
کہ بدن ہے کوئی کھلا ہوا مرے سامنے
وہی آنکھ ہے کہ ستارہ ہے مرے روبرو
یہ چراغ کیا ہے جلا ہوا مرے سامنے
مری خواب گاہ میں رات کیسا خمار تھا
کوئی جام سا تھا دھرا ہوا مرے سامنے
میں کھڑا ہوا تھا عجیب وہم و گمان میں
در خواب شب تھا کھلا ہوا مرے سامنے
کبھی لوٹ آیا میں دشت سے تو یہ شہر بھی
اسی گرد میں تھا اٹا ہوا مرے سامنے
مرا راستہ ترے راستے سے الگ ہوا
یہی راستہ تھا بچا ہوا مرے سامنے
غزل
کوئی باغ سا سجا ہوا مرے سامنے
انعام ندیمؔ