کوئی بھی دل میں ذرا جم کے خاک اڑاتا تو
ہزار گوہر نایاب دیکھ سکتا تھا
ادریس بابر
کدھر گیا وہ کوزہ گر خبر نہیں
کوئی سراغ چاک سے نہیں ملا
ادریس بابر
خودکشی بھی نہیں مرے بس میں
لوگ بس یوں ہی مجھ سے ڈرتے ہیں
ادریس بابر
کہانیوں نے مری عادتیں بگاڑی تھیں
میں صرف سچ کو ظفر یاب دیکھ سکتا تھا
ادریس بابر
کام کی بات پوچھتے کیا ہو
کچھ ہوا کچھ نہیں ہوا یعنی
ادریس بابر
اس قدر مت اداس ہو جیسے
یہ محبت کا آخری دن ہے
ادریس بابر
اس اندھیرے میں جب کوئی بھی نہ تھا
مجھ سے گم ہو گیا خدا مجھ میں
ادریس بابر
اک خوف زدہ سا شخص گھر تک
پہنچا کئی راستوں میں بٹ کر
ادریس بابر
اک دیا دل کی روشنی کا سفیر
ہو میسر تو رات بھی دن ہے
ادریس بابر