خیمگیٔ شب ہے تشنگی دن ہے
وہی دریا ہے اور وہی دن ہے
اس قدر مت اداس ہو جیسے
یہ محبت کا آخری دن ہے
اک دیا دل کی روشنی کا سفیر
ہو میسر تو رات بھی دن ہے
خاک اڑاتے کہاں پہ جاؤ گے
اب تو یہ دشت بھی کوئی دن ہے
شام آئے گی شب ڈرائے گی
تو ابھی لوٹ جا ابھی دن ہے
اور وہ بام سے اتر بھی گیا
لوگ سمجھے تھے واقعی دن ہے
مہرباں شب کی راہ میں بابرؔ
ابھی اک اور اجنبی دن ہے
غزل
خیمگیٔ شب ہے تشنگی دن ہے
ادریس بابر