میں اسے سوچتا رہا یعنی
وہ مرا خواب ہے خدا یعنی
ہجر سے ہجر تک تھی یہ ہجرت
وہ ملا یعنی کھو گیا یعنی
گردش مہر و ماہ کا حاصل
یعنی میرا وجود لا یعنی
دل کہاں شہسوار دنیا تھا
سو گرا گر کے مر گیا یعنی
تو مجھے اس کا نام بھول گیا
ہو گیا میں بھی لاپتا یعنی
کام کی بات پوچھتے کیا ہو
کچھ ہوا کچھ نہیں ہوا یعنی
چلتے رہئے تو سوکھ جائے گا
یہ سمندر یہ آبلہ یعنی
یعنی تم سے تو میں ملا ہی نہیں
وہ کوئی اور شخص تھا یعنی
کوئی آواز ٹوٹنے کی نہیں
دل میں اک بات ہے خلا یعنی
اس کو خوش دیکھ کر وہاں بابرؔ
میں بھی خوش تھا اداس تھا یعنی
غزل
میں اسے سوچتا رہا یعنی
ادریس بابر