مرے قریب ہی مہتاب دیکھ سکتا تھا
گئے دنوں میں یہ تالاب دیکھ سکتا تھا
اک ایسے وقت میں سب پیڑ میں نے نقل کیے
جہاں پہ میں انہیں شاداب دیکھ سکتا تھا
زیادہ دیر اسی ناؤ میں ٹھہرنے سے
میں اپنے آپ کو غرقاب دیکھ سکتا تھا
کوئی بھی دل میں ذرا جم کے خاک اڑاتا تو
ہزار گوہر نایاب دیکھ سکتا تھا
کہانیوں نے مری عادتیں بگاڑ دی تھیں
میں صرف سچ کو ظفر یاب دیکھ سکتا تھا
مگر وہ شہر کہانی میں رہ گیا ہے دوست!
جہاں میں رہ کے ترے خواب دیکھ سکتا تھا
غزل
مرے قریب ہی مہتاب دیکھ سکتا تھا
ادریس بابر