کام کی بات پوچھتے کیا ہو
کچھ ہوا کچھ نہیں ہوا یعنی
ادریس بابر
آج تو جیسے دن کے ساتھ دل بھی غروب ہو گیا
شام کی چائے بھی گئی موت کے ڈر کے ساتھ ساتھ
ادریس بابر
اس اندھیرے میں جب کوئی بھی نہ تھا
مجھ سے گم ہو گیا خدا مجھ میں
ادریس بابر
اک خوف زدہ سا شخص گھر تک
پہنچا کئی راستوں میں بٹ کر
ادریس بابر
اک دیا دل کی روشنی کا سفیر
ہو میسر تو رات بھی دن ہے
ادریس بابر
ہاتھ دنیا کا بھی ہے دل کی خرابی میں بہت
پھر بھی اے دوست تری ایک نظر سے کم ہے
ادریس بابر
ہاں اے غبار آشنا میں بھی تھا ہم سفر ترا
پی گئیں منزلیں تجھے کھا گئے راستے مجھے
ادریس بابر
دل کی اک ایک خرابی کا سبب جانتے ہیں
پھر بھی ممکن ہے کہ ہم تم سے مروت کر جائیں
ادریس بابر
دھول اڑتی ہے تو یاد آتا ہے کچھ
ملتا جلتا تھا لبادہ میرا
ادریس بابر