اور وحشت ہے ارادہ میرا
حق ہے صحرا پہ زیادہ میرا
تو یہی کچھ ہے وہ دنیا یعنی
ایک متروک ارادہ میرا
رات نے دل کی طرف ہاتھ بڑھائے
یہ ستارا بھی ہے آدھا میرا
آب جو میں تو چلا جلدی ہے
اک سمندر سے ہے وعدہ میرا
دھول اڑتی ہے تو یاد آتا ہے کچھ
ملتا جلتا تھا لبادہ میرا
غزل
اور وحشت ہے ارادہ میرا
ادریس بابر