دیکھ نہ اس طرح گزار عرصۂ چشم سے مجھے
فرصت دید ہو نہ ہو مہلت خواب دے مجھے
بسکہ گزشتنی ہے وقت بسکہ شکستنی ہے دل
خواب کوئی دکھا کہ جو یاد نہ آ سکے مجھے
خام ہی رکھ کے پختگی شکل ہے اک شکست کی
آتش وصل کی جگہ خاک فراق دے مجھے
ہاں اے غبار آشنا میں بھی تھا ہم سفر ترا
پی گئیں منزلیں تجھے کھا گئے راستے مجھے
دیر سے رو نہیں سکا دور ہوں سو نہیں سکا
غم جو رلا سکے مجھے سم جو سلا سکے مجھے
غزل
دیکھ نہ اس طرح گزار عرصۂ چشم سے مجھے
ادریس بابر