جرأت کہاں کہ اپنا پتہ تک بتا سکوں
جیتا ہوں اپنے ملک میں اوروں کے نام سے
حسن نعیم
جو میرے دشت جنوں میں تھا فرق روئے بہار
وہی خرد کے خرابے میں اک گلاب بنا
حسن نعیم
جو بھی کہنا ہے کہو صاف شکایت ہی سہی
ان اشارات و کنایات سے جی ڈرتا ہے
حسن نعیم
جہاں دکھائی نہ دیتا تھا ایک ٹیلہ بھی
وہاں سے لوگ اٹھا کر پہاڑ لائے ہیں
حسن نعیم
اتنا رویا ہوں غم دوست ذرا سا ہنس کر
مسکراتے ہوئے لمحات سے جی ڈرتا ہے
حسن نعیم
اقبالؔ کی نوا سے مشرف ہے گو نعیمؔ
اردو کے سر پہ میرؔ کی غزلوں کا تاج ہے
حسن نعیم
گرد شہرت کو بھی دامن سے لپٹنے نہ دیا
کوئی احسان زمانے کا اٹھایا ہی نہیں
حسن نعیم
غم سے بکھرا نہ پائمال ہوا
میں تو غم سے ہی بے مثال ہوا
حسن نعیم
ایک دریا پار کر کے آ گیا ہوں اس کے پاس
ایک صحرا کے سوا اب درمیاں کوئی نہیں
حسن نعیم