EN हिंदी
غم سے بکھرا نہ پائمال ہوا | شیح شیری
gham se bikhra na paemal hua

غزل

غم سے بکھرا نہ پائمال ہوا

حسن نعیم

;

غم سے بکھرا نہ پائمال ہوا
میں تو غم سے ہی بے مثال ہوا

وقت گزرا تو موجۂ گل تھا
وقت ٹھہرا تو ماہ و سال ہوا

ہم گئے جس شجر کے سائے میں
اس کے گرنے کا احتمال ہوا

بس کہ وحشت تھی کار دنیا سے
کچھ بھی حاصل نہ حسب حال ہوا

سن کے ایران کے نئے قصے
کچھ عجب صوفیوں کا حال ہوا

جانے زنداں میں کیا کہا اس نے
جس کا کل رات انتقال ہوا

کس لیے ظلم ہے روا اس دم
جس نے پوچھا وہ پائمال ہوا

جس تعلق پہ فخر تھا مجھ کو
وہ تعلق بھی اک وبال ہوا

اے حسنؔ نیزۂ رفیقاں سے
سر بچانا بھی اک کمال ہوا