جبر شہی کا صرف بغاوت علاج ہے
اپنا ازل سے ایک حسینی مزاج ہے
آگے تو زہر عشق میں سب زہر تھے گھلے
اب شاعری کی جان رگ احتجاج ہے
عالی نظر کے شعر پہ تیکھے مباحثے
بے نور عالموں کا مرض لا علاج ہے
ہر آن ہیں دماغ میں افکار شب نواز
اس غم کی سلطنت میں بس اک دل سراج ہے
کیا دی ہے لب کشائی کی قیمت اسے بھی دیکھ
اس دفتر نوا میں سبھی اندراج ہے
اس سوندھی مٹیوں نے دیا رنگ و ذائقہ
ہیروں سے بڑھ کے آب میں ملکی اناج ہے
اقبالؔ کی نوا سے مشرف ہے گو نعیمؔ
اردو کے سر پہ میرؔ کی غزلوں کا تاج ہے
غزل
جبر شہی کا صرف بغاوت علاج ہے
حسن نعیم