جنگلوں کی یہ مہم ہے رخت جاں کوئی نہیں
سنگ ریزوں کی گرہ میں کہکشاں کوئی نہیں
کیا خبر ہے کس کنارے اس سفر کی شام ہو
کشتئ عمر رواں میں بادباں کوئی نہیں
عاشقوں نے صرف اپنے دکھ کو سمجھا معتبر
مہر سب کی آرزو ہے مہرباں کوئی نہیں
ایک دریا پار کر کے آ گیا ہوں اس کے پاس
ایک صحرا کے سوا اب درمیاں کوئی نہیں
حسرتوں کی آبرو تہذیب غم سے بچ گئی
اس نفاست سے جلا ہے دل دھواں کوئی نہیں
کٹ چکے ہیں اپنے ماضی سے سخن کے پیشہ ور
مرثیہ گو سو چکے اور قصہ خواں کوئی نہیں
پوچھتا ہے آج ان کا بے تکلف سا لباس
اس گلی میں کیا جیالا نوجواں کوئی نہیں
وہ رہے قید زماں میں جو مکین عام ہو
لمحہ لمحہ جینے والوں کا مکاں کوئی نہیں
مجلسوں کی خاک چھانی تو کھلا مجھ پر نعیمؔ
اعظمی سا خوش نگاہ و خوش بیاں کوئی نہیں
غزل
جنگلوں کی یہ مہم ہے رخت جاں کوئی نہیں
حسن نعیم