امید و یاس نے کیا کیا نہ گل کھلائے ہیں
ہم آبشار کے بدلے سراب لائے ہیں
ہوا ہے گرم اداسی کا زرد منظر ہے
سبھی درخت ہری کونپلیں چھپائے ہیں
کٹے ہیں پاؤں تو ہاتھوں کے بل چلے اٹھ کر
مثال موج ترے ہم کنار آئے ہیں
جہاں دکھائی نہ دیتا تھا ایک ٹیلہ بھی
وہاں سے لوگ اٹھا کر پہاڑ لائے ہیں
نہ ایک بوند عنایت نہ پھول بھر خوشبو
یہ کس دیار کے بادل قفس پہ چھائے ہیں
کسے ہنر کا صلہ چاہئے مگر کچھ لوگ
کہاں کہاں سے نہ پتھر اٹھا کے لائے ہیں
ازل سے ہم کو حسنؔ انتظار سبزہ ہے
جلے ہیں باغ تو پودے نئے لگائے ہیں
غزل
امید و یاس نے کیا کیا نہ گل کھلائے ہیں
حسن نعیم