کچی قبروں پر سجی خوشبو کی بکھری لاش پر
خامشی نے اک نئے انداز میں تقریر کی
حماد نیازی
آنکھ بینائی گنوا بیٹھی تو
تیری تصویر سے منظر نکلا
حماد نیازی
ہم اس خاطر تری تصویر کا حصہ نہیں تھے
ترے منظر میں آ جائے نہ ویرانی ہماری
حماد نیازی
ہم ایسے لوگ جو آئندہ و گزشتہ ہیں
ہمارے عہد کو موجود سے تہی کیا جائے
حماد نیازی
ہار دیا ہے عجلت میں
خود کو کس آسانی سے
حماد نیازی
دل کے سونے صحن میں گونجی آہٹ کس کے پاؤں کی
دھوپ بھرے سناٹے میں آواز سنی ہے چھاؤں کی
حماد نیازی
دکھائی دینے لگی تھی خوشبو
میں پھول آنکھوں پہ مل رہا تھا
حماد نیازی
بھروا دینا مرے کاسے کو
مرے کاسے کو بھروا دینا
حماد نیازی
بس ایک لمحہ ترے وصل کا میسر ہو
اور اس وصال کے لمحے کو دائمی کیا جائے
حماد نیازی