حجرہ خواب سے باہر نکلا
کون یہ میرے برابر نکلا
پھڑپھڑایا مرے باہر کوئی
اور پرندہ مرے اندر نکلا
آنکھ سے اشک نکل آئے ہیں
ریت سے جیسے سمندر نکلا
ہجر کو خواب میں دیکھا اک دن
اور پھر خواب مقدر نکلا
میرے پیچھے مری وحشت بھاگی
میں جو دیوار گرا کر نکلا
آنکھ بینائی گنوا بیٹھی تو
تیری تصویر سے منظر نکلا
رات سینے کی حویلی گونجی
اور دل شور مچا کر نکلا
شام پھیلی تو کھلا از سر نو
میرا سایہ مرا پیکر نکلا
غزل
حجرہ خواب سے باہر نکلا
حماد نیازی