گلی کا منظر بدل رہا تھا
قدیم سورج نکل رہا تھا
ستارے حیران ہو رہے تھے
چراغ مٹی میں جل رہا تھا
دکھائی دینے لگی تھی خوشبو
میں پھول آنکھوں پہ مل رہا تھا
گھڑے میں تسبیح کرتا پانی
وضو کی خاطر اچھل رہا تھا
شفیق پوروں کا لمس پا کر
بدن صحیفے میں ڈھل رہا تھا
دعائیں کھڑکی سے جھانکتی تھیں
میں اپنے گھر سے نکل رہا تھا
ضعیف انگلی کو تھام کر میں
بڑی سہولت سے چل رہا تھا
عجیب حسرت سے دیکھتا ہوں
میں جن مکانوں میں کل رہا تھا
غزل
گلی کا منظر بدل رہا تھا
حماد نیازی