سبز کھیتوں سے امڈتی روشنی تصویر کی
میں نے اپنی آنکھ سے اک حرف گہ تعمیر کی
سن قطار اندر قطار اشجار کی سرگوشیاں
اور کہانی پڑھ خزاں نے رات جو تحریر کی
کچی قبروں پر سجی خوشبو کی بکھری لاش پر
خامشی نے اک نئے انداز میں تقریر کی
بچپنے کی درس گاہوں میں پرانے ٹاٹ پر
دل نے حیرانی کی پہلی بارگہہ تسخیر کی
روشنی میں رقص کرتے خاک کے ذرات نے
انتہائے آب و گل کی اولیں تفسیر کی
کوہساروں کے سروں پر بادلوں کی پگڑیاں
ایک تمثیل نمایاں آیۂ تطہیر کی
دھند کے لشکر کا چاروں اور پہرا تھا مگر
اک دیے نے روشنی کی رات بھر تشہیر کی
آج پھر آب مقدس آنکھ سے ہجرت کیا
گھر پہنچنے میں کسی نے آج پھر تاخیر کی
غزل
سبز کھیتوں سے امڈتی روشنی تصویر کی
حماد نیازی