دل کی یاد دہانی سے
آنکھ کھلی حیرانی سے
رنگ ہیں سارے مٹی کے
بے رنگے اس پانی سے
حرف نگاری سیکھی ہے
کمرے کی ویرانی سے
پیڑ اجڑتے جاتے ہیں
شاخوں کی نادانی سے
داغ گریہ آنکھوں کا
کب دھلتا ہے پانی سے
ہار دیا ہے عجلت میں
خود کو کس آسانی سے
خوف آتا ہے آنکھوں کو
بھید بھری عریانی سے
روز پسینہ بہتا ہے
آنکھوں کی پیشانی سے
غزل
دل کی یاد دہانی سے
حماد نیازی