EN हिंदी
یقین کی سلطنت تھی اور سلطانی ہماری | شیح شیری
yaqin ki saltanat thi aur sultani hamari

غزل

یقین کی سلطنت تھی اور سلطانی ہماری

حماد نیازی

;

یقیں کی سلطنت تھی اور سلطانی ہماری
دمکتی تھی دعا کی لو سے پیشانی ہماری

مہکتا تھا گھنے پیڑوں سے ویرانہ ہمارا
جہان آب و گل پر تھی نگہبانی ہماری

ہمارے جسم کے ٹکڑے ہوئے روندے گئے ہم
مگر زندہ رہی آنکھوں میں حیرانی ہماری

ہم اس خاطر تری تصویر کا حصہ نہیں تھے
ترے منظر میں آ جائے نہ ویرانی ہماری

بہت لمبے سفر کی گرد چہروں پر پڑی تھی
کسی نے دشت میں صورت نہ پہچانی ہماری

کسی نے کب بھلا جانا ہمارا کرب وحشت
کسی نے کب بھلا جانی پریشانی ہماری