ہجر کے تپتے موسم میں بھی دل ان سے وابستہ ہے
اب تک یاد کا پتا پتا ڈالی سے پیوستہ ہے
مدت گزری دور سے میں نے ایک سفینہ دیکھا تھا
اب تک خواب میں آ کر شب بھر دریا مجھ کو ڈستا ہے
شام ابد تک ٹکرانے کا اذن نہیں ہے دونوں کو
چاند اسی پر گرم سفر ہے جو سورج کا رستہ ہے
تیز نہیں گر آنچ بدن کی جم جاؤگے رستے میں
اس بستی کو جانے والی پگڈنڈی یخ بستہ ہے
آیا ہے اک راہ نما کے استقبال کو اک بچہ
پیٹ ہے خالی آنکھ میں حسرت ہاتھوں میں گلدستہ ہے
لفظوں کا بیوپار نہ آیا اس کو کسی مہنگائی میں
کل بھی قاصرؔ کم قیمت تھا آج بھی قاصر سستا ہے
غزل
ہجر کے تپتے موسم میں بھی دل ان سے وابستہ ہے
غلام محمد قاصر