EN हिंदी
ہم نے تو بے شمار بہانے بنائے ہیں | شیح شیری
humne to be-shumar bahane banae hain

غزل

ہم نے تو بے شمار بہانے بنائے ہیں

غلام محمد قاصر

;

ہم نے تو بے شمار بہانے بنائے ہیں
کہتا ہے دل کہ بت بھی خدا نے بنائے ہیں

لے لے کے تیرا نام ان آنکھوں نے رات بھر
تسبیح انتظار کے دانے بنائے ہیں

ہم نے تمہارے غم کو حقیقت بنا دیا
تم نے ہمارے غم کے فسانے بنائے ہیں

وہ لوگ مطمئن ہیں کہ پتھر ہیں ان کے پاس
ہم خوش کہ ہم نے آئینہ خانے بنائے ہیں

بھونرے انہی پہ چل کے کریں گے طواف گل
جو دائرے چمن میں صبا نے بنائے ہیں

ہم تو وہاں پہنچ نہیں سکتے تمام عمر
آنکھوں نے اتنی دور ٹھکانے بنائے ہیں

آج اس بدن پہ بھی نظر آئے طلب کے داغ
دیوار پر بھی نقش وفا نے بنائے ہیں