EN हिंदी
فیض احمد فیض شیاری | شیح شیری

فیض احمد فیض شیر

75 شیر

سجاؤ بزم غزل گاؤ جام تازہ کرو
''بہت سہی غم گیتی شراب کم کیا ہے''

فیض احمد فیض




سب قتل ہو کے تیرے مقابل سے آئے ہیں
ہم لوگ سرخ رو ہیں کہ منزل سے آئے ہیں

فیض احمد فیض




بے دم ہوئے بیمار دوا کیوں نہیں دیتے
تم اچھے مسیحا ہو شفا کیوں نہیں دیتے

فیض احمد فیض




گر بازی عشق کی بازی ہے جو چاہو لگا دو ڈر کیسا
گر جیت گئے تو کیا کہنا ہارے بھی تو بازی مات نہیں

فیض احمد فیض




غم جہاں ہو رخ یار ہو کہ دست عدو
سلوک جس سے کیا ہم نے عاشقانہ کیا

فیض احمد فیض




فریب آرزو کی سہل انگاری نہیں جاتی
ہم اپنے دل کی دھڑکن کو تری آواز پا سمجھے

فیض احمد فیض




دنیا نے تیری یاد سے بیگانہ کر دیا
تجھ سے بھی دل فریب ہیں غم روزگار کے

This world has caused me to forget all thoughts of you
The sorrows of subsistence are more deceitful than you

فیض احمد فیض




دونوں جہان تیری محبت میں ہار کے
وہ جا رہا ہے کوئی شب غم گزار کے

فیض احمد فیض




دل سے تو ہر معاملہ کر کے چلے تھے صاف ہم
کہنے میں ان کے سامنے بات بدل بدل گئی

I ventured forth with all my thoughts properly arranged
In her presence when I spoke, the meaning had all changed

فیض احمد فیض