اب اپنا اختیار ہے چاہے جہاں چلیں
رہبر سے اپنی راہ جدا کر چکے ہیں ہم
فیض احمد فیض
''آپ کی یاد آتی رہی رات بھر''
چاندنی دل دکھاتی رہی رات بھر
فیض احمد فیض
آئے تو یوں کہ جیسے ہمیشہ تھے مہربان
بھولے تو یوں کہ گویا کبھی آشنا نہ تھے
فیض احمد فیض
ہم شیخ نہ لیڈر نہ مصاحب نہ صحافی
جو خود نہیں کرتے وہ ہدایت نہ کریں گے
فیض احمد فیض
جو نفس تھا خار گلو بنا جو اٹھے تھے ہاتھ لہو ہوئے
وہ نشاط آہ سحر گئی وہ وقار دست دعا گیا
فیض احمد فیض
جواں مردی اسی رفعت پہ پہنچی
جہاں سے بزدلی نے جست کی تھی
فیض احمد فیض
جل اٹھے بزم غیر کے در و بام
جب بھی ہم خانماں خراب آئے
فیض احمد فیض
جب تجھے یاد کر لیا صبح مہک مہک اٹھی
جب ترا غم جگا لیا رات مچل مچل گئی
When your thoughts arose, fragrant was the morn
When your sorrow's woke, the night was all forlorn
فیض احمد فیض
جانتا ہے کہ وہ نہ آئیں گے
پھر بھی مصروف انتظار ہے دل
فیض احمد فیض