میری خاموشیوں میں لرزاں ہے
میرے نالوں کی گم شدہ آواز
فیض احمد فیض
مقام فیضؔ کوئی راہ میں جچا ہی نہیں
جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے
فیض احمد فیض
مے خانہ سلامت ہے تو ہم سرخیٔ مے سے
تزئین در و بام حرم کرتے رہیں گے
فیض احمد فیض
خیر دوزخ میں مے ملے نہ ملے
شیخ صاحب سے جاں تو چھوٹے گی
فیض احمد فیض
کٹتے بھی چلو بڑھتے بھی چلو بازو بھی بہت ہیں سر بھی بہت
چلتے بھی چلو کہ اب ڈیرے منزل ہی پہ ڈالے جائیں گے
فیض احمد فیض
کرو کج جبیں پہ سر کفن مرے قاتلوں کو گماں نہ ہو
کہ غرور عشق کا بانکپن پس مرگ ہم نے بھلا دیا
فیض احمد فیض
کر رہا تھا غم جہاں کا حساب
آج تم یاد بے حساب آئے
فیض احمد فیض
کب ٹھہرے گا درد اے دل کب رات بسر ہوگی
سنتے تھے وہ آئیں گے سنتے تھے سحر ہوگی
فیض احمد فیض
جدا تھے ہم تو میسر تھیں قربتیں کتنی
بہم ہوئے تو پڑی ہیں جدائیاں کیا کیا
فیض احمد فیض