EN हिंदी
کبھی قطار سے باہر کبھی قطار کے بیچ | شیح شیری
kabhi qatar se bahar kabhi qatar ke bich

غزل

کبھی قطار سے باہر کبھی قطار کے بیچ

اعجاز گل

;

کبھی قطار سے باہر کبھی قطار کے بیچ
میں ہجر زاد ہوا خرچ انتظار کے بیچ

بنا ہوا ہے تعلق سا استواری کا
مرے طواف سے اس محور و مدار کے بیچ

کہ آتا جاتا رہے عکس حیرتی اس میں
بچھا دیا گیا آئینہ آر پار کے بیچ

ہوا کے کھیل میں شرکت کے واسطے مجھ کو
خزاں نے شاخ سے پھینکا ہے رہ گزار کے بیچ

یہ میں ہوں تو ہے ہیولیٰ ہے ہر مسافر کا
جو مٹ رہا ہے تھکن سے ادھر غبار کے بیچ

کوئی لکیر سی پانی کی جھلملاتی ہے
کبھی کبھی مرے متروک آبشار کے بیچ

میں عمر کو تو مجھے عمر کھینچتی ہے الٹ
تضاد سمت کا ہے اسپ اور سوار کے بیچ