ادب تعلیم کا جوہر ہے زیور ہے جوانی کا
وہی شاگرد ہیں جو خدمت استاد کرتے ہیں
چکبست برج نرائن
اگر درد محبت سے نہ انساں آشنا ہوتا
نہ کچھ مرنے کا غم ہوتا نہ جینے کا مزا ہوتا
چکبست برج نرائن
عزیزان وطن کو غنچہ و برگ و ثمر جانا
خدا کو باغباں اور قوم کو ہم نے شجر جانا
چکبست برج نرائن
چراغ قوم کا روشن ہے عرش پر دل کے
اسے ہوا کے فرشتے بجھا نہیں سکتے
چکبست برج نرائن
ایک ساغر بھی عنایت نہ ہوا یاد رہے
ساقیا جاتے ہیں محفل تری آباد رہے
چکبست برج نرائن
گنہگاروں میں شامل ہیں گناہوں سے نہیں واقف
سزا کو جانتے ہیں ہم خدا جانے خطا کیا ہے
چکبست برج نرائن
ہے مرا ضبط جنوں جوش جنوں سے بڑھ کر
ننگ ہے میرے لیے چاک گریباں ہونا
چکبست برج نرائن
اک سلسلہ ہوس کا ہے انساں کی زندگی
اس ایک مشت خاک کو غم دو جہاں کے ہیں
چکبست برج نرائن
اس کو ناقدریٔ عالم کا صلہ کہتے ہیں
مر چکے ہم تو زمانے نے بہت یاد کیا
چکبست برج نرائن