انہیں یہ فکر ہے ہر دم نئی طرز جفا کیا ہے
ہمیں یہ شوق ہے دیکھیں ستم کی انتہا کیا ہے
گنہگاروں میں شامل ہیں گناہوں سے نہیں واقف
سزا کو جانتے ہیں ہم خدا جانے خطا کیا ہے
یہ رنگ بیکسی رنگ جنوں بن جائے گا غافل
سمجھ لے یاس و حرماں کے مرض کی انتہا کیا ہے
نیا بسمل ہوں میں واقف نہیں رسم شہادت سے
بتا دے تو ہی اے ظالم تڑپنے کی ادا کیا ہے
چمکتا ہے شہیدوں کا لہو پردے میں قدرت کے
شفق کا حسن کیا ہے شوخئ رنگ حنا کیا ہے
امیدیں مل گئیں مٹی میں دور ضبط آخر ہے
صدائے غیب بتلا دے ہمیں حکم خدا کیا ہے
غزل
انہیں یہ فکر ہے ہر دم نئی طرز جفا کیا ہے
چکبست برج نرائن