فنا کا ہوش آنا زندگی کا درد سر جانا
اجل کیا ہے خمار بادۂ ہستی اتر جانا
عزیزان وطن کو غنچہ و برگ و ثمر جانا
خدا کو باغباں اور قوم کو ہم نے شجر جانا
عروس جاں نیا پیراہن ہستی بدلتی ہے
فقط تمہید آنے کی ہے دنیا سے گزر جانا
مصیبت میں بشر کے جوہر مردانہ کھلتے ہیں
مبارک بزدلوں کو گردش قسمت سے ڈر جانا
وہ طبع یاس پرور نے مجھے چشم عقیدت دی
کہ شام غم کی تاریکی کو بھی نور سحر جانا
بہت سودا رہا واعظ تجھے نار جہنم کا
مزہ سوز محبت کا بھی کچھ اے بے خبر جانا
کرشمہ یہ بھی ہے اے بے خبر افلاس قومی کا
تلاش رزق میں اہل ہنر کا در بدر جانا
اجل کی نیند میں بھی خواب ہستی گر نظر آیا
تو پھر بے کار ہے تنگ آ کے اس دنیا سے مر جانا
وہ سودا زندگی کا ہے کہ غم انسان سہتا ہے
نہیں تو ہے بہت آسان اس جینے سے مر جانا
چمن زار محبت میں اسی نے باغبانی کی
کہ جس نے اپنی محنت کو ہی محنت کا ثمر جانا
سدھاری منزل ہستی سے کچھ بے اعتنائی سے
تن خاکی کو شاید روح نے گرد سفر جانا
غزل
فنا کا ہوش آنا زندگی کا درد سر جانا
چکبست برج نرائن