خود اپنی فکر اگاتی ہے وہم کے کانٹے
الجھ الجھ کے مرا ہر سوال ٹھہرا ہے
بلقیس ظفیر الحسن
انہونی کچھ ضرور ہوئی دل کے ساتھ آج
نادان تھا مگر یہ دوانا کبھی نہ تھا
بلقیس ظفیر الحسن
جانے کیا کچھ ہے آج ہونے کو
جی مرا چاہتا ہے رونے کو
بلقیس ظفیر الحسن
ہر دل عزیز وہ بھی ہے ہم بھی ہیں خوش مزاج
اب کیا بتائیں کیسے ہماری نہیں بنی
بلقیس ظفیر الحسن
ہم تو بیگانے سے خود کو بھی ملے ہیں بلقیسؔ
کس توقع پہ کسی شخص کو اپنا سمجھیں
بلقیس ظفیر الحسن
ہے یوں کہ کچھ تو بغاوت سرشت ہم بھی ہیں
ستم بھی اس نے ضرورت سے کچھ زیادہ کیا
بلقیس ظفیر الحسن
در بدر کی خاک تھی تقدیر میں
ہم لیے کاندھوں پہ گھر چلتے رہے
بلقیس ظفیر الحسن
دہشت زدہ زمیں پر وحشت بھرے مکاں یہ
اس شہر بے اماں کا آخر کوئی خدا ہے
بلقیس ظفیر الحسن
بس ایک جان بچی تھی چھڑک دی راہوں پر
دل غریب نے اک اہتمام سادہ کیا
بلقیس ظفیر الحسن