اپنی تو کوئی بات بنائے نہیں بنی
کچھ ہم نہ کہہ سکے تو کچھ اس نے نہیں سنی
یوں تو چہار سمت ہے اپنے حصار شب
ہم تیرگی کو چھید کے لاتے ہیں روشنی
نادیدہ منظروں سے تراشے ہیں خواب زار
کب در خور نگہ کوئی منظر ہے دیدنی
اوچھا تھا وار اس کا مگر ہم نہ بچ سکے
کسی زہر میں بجھائی تھی اس شخص نے انی
ہر دل عزیز وہ بھی ہے ہم بھی ہیں خوش مزاج
اب کیا بتائیں کیسے ہماری نہیں بنی
اوروں کی طرح ہم بھی مگر جھیل جائیں گے
سب زندگی سمجھتے ہیں جس کو وہ جاں کنی
بلقیسؔ اپنی بات تو سب سے الگ رہی
ناگفتنی سنی ہے کہی ناشنیدنی
غزل
اپنی تو کوئی بات بنائے نہیں بنی
بلقیس ظفیر الحسن