دیوار و در میں سمٹا اک لمس کانپتا ہے
بھولے سے کوئی دستک دے کر چلا گیا ہے
صبر و شکیب باقی تاب و تواں سلامت
دل مثل عود جل جل خوشبو بکھیرتا ہے
ہم خاک ہو چکے تھے اپنی ہی حدتوں میں
مٹی ہے راکھ پھر سے پیکر نیا بنا ہے
اک زخم زخم چہرہ ٹکڑوں میں ہاتھ آیا
اور ہم سمجھ رہے تھے آئینہ جڑ گیا ہے
صحرائے نیم شب میں بے آس ریتوں پر
دن بھر کے کشت و خوں کا مارا تڑپ رہا ہے
دہشت زدہ زمیں پر وحشت بھرے مکاں یہ
اس شہر بے اماں کا آخر کوئی خدا ہے
مل جائے آبلوں کو داد مسافرت اب
اب درد بے نوائی کچھ حد سے بھی سوا ہے
ہم پر تو کھل چکا بھی در بند ہر بلا کا
کیا جانئے اجل کو اب انتظار کیا ہے
گل چینیوں کا ہم سے بلقیسؔ حال پوچھو
انگشت آرزو میں کانٹا اتر گیا ہے
غزل
دیوار و در میں سمٹا اک لمس کانپتا ہے
بلقیس ظفیر الحسن