کب ایک رنگ میں دنیا کا حال ٹھہرا ہے
خوشی رکی ہے نہ کوئی ملال ٹھہرا ہے
تڑپ رہے ہیں پڑے روز و شب میں الجھے لوگ
نفس نفس کوئی پیچیدہ جال ٹھہرا ہے
خود اپنی فکر اگاتی ہے وہم کے کانٹے
الجھ الجھ کے مرا ہر سوال ٹھہرا ہے
بس اک کھنڈر مرے اندر جئے ہی جاتا ہے
عجیب حال ہے ماضی میں حال ٹھہرا ہے
کبھی نہیں تھا نہ اب ہے خیال سود و زیاں
وہی تو ہوگا جو اپنا مآل ٹھہرا ہے
اس ایک بات کو گزرے زمانہ بیت گیا
مگر دلوں میں ابھی تک ملال ٹھہرا ہے
جنوں کے سائے میں اب گھر بنا لیا دل نے
چلو کہیں تو وہ آوارہ حال ٹھہرا ہے
بڑے کمال کا نکلا وہ آدمی بلقیسؔ
کہ بے ہنر ہے مگر باکمال ٹھہرا ہے
غزل
کب ایک رنگ میں دنیا کا حال ٹھہرا ہے
بلقیس ظفیر الحسن