EN हिंदी
زخم کو پھول کہیں نوحے کو نغمہ سمجھیں | شیح شیری
zaKHm ko phul kahen nauhe ko naghma samjhen

غزل

زخم کو پھول کہیں نوحے کو نغمہ سمجھیں

بلقیس ظفیر الحسن

;

زخم کو پھول کہیں نوحے کو نغمہ سمجھیں
اتنے سادہ بھی نہیں ہم کہ نہ اتنا سمجھیں

زخم کا اپنے مداوا کسے منظور نہیں
ہاں مگر کیوں کسی قاتل کو مسیحا سمجھیں

شعبدہ بازی کسی کی نہ چلے گی ہم پر
طنز و دشنام کو کہتے ہو لطیفہ سمجھیں

خود پہ یہ ظلم گوارا نہیں ہوگا ہم سے
ہم تو شعلوں سے نہ گزریں گے نہ سیتا سمجھیں

چھوڑیئے پیروں میں کیا لکڑیاں باندھے پھرنا
اپنے قد سے مرا قد، شوق سے چھوٹا سمجھیں

کوئی اچھا ہے تو اچھا ہی کہیں گے ہم بھی
لوگ بھی کیا ہیں ذرا دیکھیے کیا کیا سمجھیں

ہم تو بیگانے سے خود کو بھی ملے ہیں بلقیسؔ
کس توقع پہ کسی شخص کو اپنا سمجھیں