شام سے ہم تا سحر چلتے رہے
چور تھے تھک کر مگر چلتے رہے
سنگ ہو جاتے جو مڑ کر دیکھتے
انگلیاں کانوں میں دھر چلتے رہے
آسماں تھا آگ پتھر تھی زمیں
تھی کہاں جائے مفر چلتے رہے
روز ڈوبے روز ابھرے ہم مگر
صورت شمس و قمر چلتے رہے
سنگ باری یوں تو ہم پر بھی ہوئی
ہم ڈھکے ہاتھوں سے سر چلتے رہے
در بدر کی خاک تھی تقدیر میں
ہم لیے کاندھوں پہ گھر چلتے رہے
ہم بھی ہیں بلقیسؔ مجروحین میں
ہم پہ بھی تیر و تبر چلتے رہے
غزل
شام سے ہم تا سحر چلتے رہے
بلقیس ظفیر الحسن