جانے کیا کچھ ہے آج ہونے کو
جی مرا چاہتا ہے رونے کو
ایک عمر اور ہاتھ کیا آیا
زندگی کیا ملی تھی کھونے کو
آبلوں سے پٹے پڑے ہیں ہم
کوئی نشتر بھی دے چبھونے کو
دیدۂ تر بھی آج کھو آئے
اس کے آگے گئے تھے رونے کو
ریت مٹھی میں بھر کے بیٹھے ہیں
ہاتھ میں کچھ رہے تو کھونے کو
اپنی ہستی کا حال کیا کہئے
ہم ہوئے آہ کچھ نہ ہونے کو
کتنے سادہ ہیں ہم کہ بیٹھے ہیں
داغ دل آنسوؤں سے دھونے کو
غزل
جانے کیا کچھ ہے آج ہونے کو
بلقیس ظفیر الحسن