بدن پہ زخم سجائے لہو لبادہ کیا
ہر ایک سنگ سے یوں ہم نے استفادہ کیا
ہے یوں کہ کچھ تو بغاوت سرشت ہم بھی ہیں
ستم بھی اس نے ضرورت سے کچھ زیادہ کیا
ہمیں تو موت بھی دے کوئی کب گوارا تھا
یہ اپنا قتل تو بالقصد بالارادہ کیا
بس ایک جان بچی تھی چھڑک دی راہوں پر
دل غریب نے اک اہتمام سادہ کیا
جو جس جگہ کے تھا قابل اسے وہیں رکھا
نہ زیادہ کم کیا ہم نے نہ کم زیادہ کیا
بچا لیا ہے جو سر اپنا سخت نادم ہیں
مگر یہ اپنا تحفظ تو بے ارادہ کیا
نہ لوٹنے کا ہے رستہ نہ ٹھہرنے کی ہے جا
کدھر کا آج جنوں نے مرے ارادہ کیا
غزل
بدن پہ زخم سجائے لہو لبادہ کیا
بلقیس ظفیر الحسن