رہین آس رہی ہے نہ محو یاس رہی
بچھڑ کے تجھ سے مری زیست بدحواس رہی
جو رند آیا تری بزم میں ہوا سیراب
وہ تشنہ کام رہا میں کہ جس کو پیاس رہی
تری نگاہ کرم نے وہ گل کھلائے ہیں
چمن میں فصل بہاراں اداس اداس رہی
ہر ایک لحظہ مری دھڑکنوں میں چبھتی تھی
عجیب چیز مرے دل کے آس پاس رہی
مئے نشاط تری سادگی نے چھلکا دی
نگاہ عشق کو کیا جانے کس کی پیاس رہی
غزل
رہین آس رہی ہے نہ محو یاس رہی
بیکل اتساہی