زندگی یوں تو گزر جاتی ہے آرام کے ساتھ
کشمکش سی ہے مگر گردش ایام کے ساتھ
رفعتیں دیکھتی رہ جاتی ہیں اس کی پرواز
وہ تصور کہ ہے وابستہ ترے نام کے ساتھ
مل ہی جائے گی کبھی منزل مقصود سحر
شرط یہ ہے کہ سفر کرتے رہو شام کے ساتھ
دام ہستی ہے خوش آئند بھی دل کش بھی مگر
اڑتے جاتے ہیں گرفتار اسی دام کے ساتھ
جب کسی لمحۂ دوراں کو ٹٹولا ہم نے
روئے آغاز نظر آیا ہے انجام کے ساتھ
ان روایات کو دہراتے ہیں ہم از سر نو
وہ جو منسوب ہیں صدیوں سے ترے نام کے ساتھ
حرف آئے نہ تمنائیؔ کہیں ساقی پر
آج محفل میں چلے آئے ہیں ہم جام کے ساتھ
غزل
زندگی یوں تو گزر جاتی ہے آرام کے ساتھ
عزیز تمنائی