کرتے رہے تعاقب ایام عمر بھر
اڑتا رہا غبار بہر گام عمر بھر
حسرت سے دیکھتے رہے ہر خوش خرام کو
ہم صورت طیور تہ دام عمر بھر
ہر چند تلخ کام تھا ہر جرعۂ حیات
منہ سے لگائے بیٹھے رہے جام عمر بھر
ہر شاخ نو بہار تھی آلودۂ غبار
ڈھونڈا کئے نشیمن آرام عمر بھر
کچھ کام آ سکیں نہ یہاں بے گناہیاں
ہم پر لگا ہوا تھا وہ الزام عمر بھر
دیتا رہا صدائیں ہمیں دور دور تک
کوئی چھپا ہوا پس اصنام عمر بھر
با وصف احتیاط تمنائیؔ ہم رہے
پابستۂ سلاسل اوہام عمر بھر
غزل
کرتے رہے تعاقب ایام عمر بھر
عزیز تمنائی