ہر ایک رنگ میں یوں ڈوب کر نکھرتے رہے
خطوط نقش مصور میں رنگ بھرتے رہے
خدا بچائے بگولوں کی زد میں آئے ہیں
وہ برگ سبز جو موج ہوا سے ڈرتے رہے
انہیں کے پاؤں سے لپٹی ہوئی ہے موج حیات
جو بے کنار سمندر کے پار اترتے رہے
کہاں تھی جرأت نظارۂ جمال سحر
اگرچہ گیسوئے شب رات بھر سنورتے رہے
وہیں بہار بکف قافلے لپک کے چلے
جہاں جہاں ترے نقش قدم ابھرتے رہے
اگرچہ بستۂ دام خیال تھے لیکن
کشودہ عقدۂ لیل و نہار کرتے رہے
انہیں کے ساتھ ہے اپنا سفر تمنائیؔ
وہ خوش خرام جو ہر دور سے گزرتے رہے
غزل
ہر ایک رنگ میں یوں ڈوب کر نکھرتے رہے
عزیز تمنائی