اٹھا کے میرے ذہن سے شباب کوئی لے گیا
اندھیرے چیختے ہیں آفتاب کوئی لے گیا
میں سارے کاغذات لے کے دیکھتا ہی رہ گیا
ثواب کوئی لے گیا عذاب کوئی لے گیا
سپرد کر کے خامشی کی مہر خوش نما مجھے
لبوں سے نعرہ ہائے انقلاب کوئی لے گیا
ہے اعتراف میرے ہاتھ میں جو ایک چیز تھی
سنبھال کر رکھا تو تھا جناب کوئی لے گیا
یہ غم نہیں کہ مجھ کو جاگنا پڑا ہے عمر بھر
یہ رنج ہے کہ میرے سارے خواب کوئی لے گیا
شجر شجر ورق ورق پیام بر وہاں بھی ہے
جہاں سے ہر صحیفہ ہر کتاب کوئی لے گیا
شناخت ہو سکی نہ پھر بھی یہ مرا قصور تھا
ہمارے درمیاں تھا جو حجاب کوئی لے گیا
غزل
اٹھا کے میرے ذہن سے شباب کوئی لے گیا
عزیز تمنائی