پاتے ہیں کچھ کمی سی تصویر زندگی میں
کیا نقش چھوڑ آئے ہم دشت بے خودی میں
زنجیر آگہی سے شمشیر آگہی تک
کیا کیا مقام آئے دل کی سپہ گری میں
جی دیکھنے کو ترسے دیکھوں تو کس نظر سے
طوفان خیرگی ہے جلووں کی روشنی میں
ہستی بجائے خود ہے اک کارگاہ ہستی
ہم مست بندگی میں وہ بندہ پروری میں
ڈھونڈے سے بھی نہ پائی صدیوں کی جستجو نے
شامل تھی جو تجلی ترتیب عنصری میں
وہ شے کہاں ہے پنہاں اے موج آب حیواں
جو وجۂ سر خوشی تھی برسوں کی تشنگی میں
غزل
پاتے ہیں کچھ کمی سی تصویر زندگی میں
عزیز تمنائی