ہمیشہ تنکے ہی چنتے گزر گئی اپنی
مگر چمن میں کہیں آشیاں بنا نہ سکے
عزیز لکھنوی
حقارت سے نہ دیکھو ساکنان خاک کی بستی
کہ اک دنیا ہے ہر ذرہ ان اجزائے پریشاں کا
عزیز لکھنوی
ہجر کی رات کاٹنے والے
کیا کرے گا اگر سحر نہ ہوئی
عزیز لکھنوی
حسن آراستہ قدرت کا عطیہ ہے مگر
کیا مرا عشق جگر سوز خدا داد نہیں
عزیز لکھنوی
اتنا بھی بار خاطر گلشن نہ ہو کوئی
ٹوٹی وہ شاخ جس پہ مرا آشیانہ تھا
عزیز لکھنوی
جب سے زلفوں کا پڑا ہے اس میں عکس
دل مرا ٹوٹا ہوا آئینہ ہے
عزیز لکھنوی
جھوٹے وعدوں پر تھی اپنی زندگی
اب تو وہ بھی آسرا جاتا رہا
عزیز لکھنوی
کبھی جنت کبھی دوزخ کبھی کعبہ کبھی دیر
عجب انداز سے تعمیر ہوا خانۂ دل
عزیز لکھنوی
خود چلے آؤ یا بلا بھیجو
رات اکیلے بسر نہیں ہوتی
عزیز لکھنوی