دل نہیں جب تو خاک ہے دنیا
اصل جو چیز تھی وہی نہ رہی
عزیز لکھنوی
آئینہ چھوڑ کے دیکھا کئے صورت میری
دل مضطر نے مرے ان کو سنورنے نہ دیا
عزیز لکھنوی
دل کے اجزا میں نہیں ملتا کوئی جزو نشاط
اس صحیفے سے کسی نے اک ورق کم کر دیا
عزیز لکھنوی
بے خودی کوچۂ جاناں میں لیے جاتی ہے
دیکھیے کون مجھے میری خبر دیتا ہے
عزیز لکھنوی
بتاؤ ایسے مریضوں کا ہے علاج کوئی
کہ جن سے حال بھی اپنا بیاں نہیں ہوتا
عزیز لکھنوی
بنی ہیں شہر آشوب تمنا
خمار آلودہ آنکھیں رات بھر کی
عزیز لکھنوی
اپنے مرکز کی طرف مائل پرواز تھا حسن
بھولتا ہی نہیں عالم تری انگڑائی کا
عزیز لکھنوی
اے سوز عشق پنہاں اب قصہ مختصر ہے
اکسیر ہو چلا ہوں اک آنچ کی کسر ہے
عزیز لکھنوی
عہد میں تیرے ظلم کیا نہ ہوا
خیر گزری کہ تو خدا نہ ہوا
عزیز لکھنوی